حرفِ آغاز

حضور ﷺ كے اخلاق

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          محسنِ انسانیت، پیغمبرِ اعظم سَیِّدُنا محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بعثت سے وفات تک کے وقایع زندگی قابلِ اعتماد طریقے سے پوری طرح مدون ومحفوظ ہیں؛ حتیٰ کہ آپ کا مبارک حلیہ آپ کے سر کے بالوں کی کیفیت، پیشانی کی ہیئت، آنکھوں، ہونٹوں اور دانتوں کی وضع، داڑھی کی نوعیت، سینہ کی چوڑائی، مونڈھوں کی مضبوطی، اور ان کے درمیان کا فاصلہ، پنڈلیاں، پیر اوران کی انگلیوں کی تفصیل، بانہہ، کلائی، ہتھیلی اور ہاتھوں کی انگلیوں کی ساخت کا بیان غرضیکہ آپ کا مکمل سراپا ”شمائلِ نبوی“ کے موضوع پر مرتب کی گئیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

          پھر رزم وبزم میں لوگوں کے ساتھ آپ کا سلوک، معاملات کا طریقہ، سلام وکلام کی نوعیت، گفت وشنید کی حالت، چلنے کا انداز، اٹھنے بیٹھنے کی وضع، لیٹنے اور سونے کی صورت، کھانے پینے کا طریقہ، بدن کے کپڑوں کی ہیئت اور ان کے استعمال کا ڈھنگ صحابہٴ کرام کی تعلیم وتربیت کے آداب، ازواجِ مطہرات کے ساتھ رہنے سہنے کا طور، اور دنیا سے بے نیاز ہوکر عبادتِ خداوندی میں انہماک؛ الحاصل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابِ زندگی کا ایک ایک ورق آئینہ کی مانند صاف وشفاف، روشن اور تابناک ہے، عالمِ انسانیت میں آپ ہی کی وہ منفرد اور واحد شخصیت ہے، جس کے شعبہ ہائے زندگی کی جملہ تفصیلات باوثوق طریقے سے دنیا کے سامنے موجود ہیں، پھر ان میں ایسا توازن، اعتدال، سادگی اور رعنائی ودل کشی ہے کہ ایک منصف مزاج صاحبِ عقل وہوش چاہے وہ کسی دین ومذہب کا پیروکار ہو جب انھیں دیکھتا اور پڑھتا ہے تو بے ساختہ تحسین وآفریں کے کلمات اس کی زبان وقلم سے جاری ہوجاتے ہیں۔

          اب اگر کوئی فرد، جماعت یا قوم اس نمونہ اور ہدایت خیز سیرت پر گرد اڑانے اور صاحب سیرت کی تضحیک ، توہین کی مذموم مجنونانہ حرکت کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے اندر چھپے ُخبث ہی کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی مریض طبیعت کی گندگی سے دنیا والوں کے فکر ومزاج کو گندا بنانے کی شرپسند کوشش کرتا ہے، جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے؛ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب بالخصوص امریکہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں اور دنیا کو اپنے زہریلے جراسیم سے مسموم کردینے کی مہم میں مصروف ہیں۔

          ہر دن یورپ وامریکہ سے بغض وکینہ سے آلود کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھتا رہتا ہے، کبھی کارٹون کی شکل میں، کبھی تصویر کے ذریعہ، کبھی ناول کے روپ میں، کبھی سی، ڈی کے پیکر میں کبھی قرآن سوزی کی صورت میں، درحقیقت مغرب اپنے قلبی مرض کی وجہ سے شہری آزادی کے نام پر اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کے حافظہ سے آزادی کا صحیح معنی وحقیقی مفہوم ہی ناپید ہوگیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دنیا میں پھیلے ہوئے سواسو کروڑ انسانوں کی دل آزاری کرنے والوں کو بڑے بڑے انعامات سے نوازاجاتا ہے، سلمان رشدی جیسے گھٹیا ناول نگار کو بھی برطانیہ نے اس لیے اعلیٰ اعزاز دیا کہ اس نے اپنے مسموم وملعون فکر وقلم سے اہلِ اسلام کو تکلیف پہنچائی تھی۔

          بلاشبہ اسلام بے جا تشدد اور انسانی جانوں کے زیاں کو سخت ناپسند کرتا ہے؛اس لیے لیبیا میں جو کچھ ہوا وہ یقینا افسوس ناک ہے؛ کیونکہ ایسے مواقع پر اسلام نے صبر وضبط کی جو تعلیم دی ہے، یہ رویہ اس سے میل نہیں کھاتا ہے؛ لیکن اس سے زیادہ وہ فلم (جس میں پیغمبرِ اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے) اس کے پروڈیوسر، ڈائرکٹر اور اس سے وابستہ دیگر افراد قابل مذمت ہیں، جن کی مذموم حرکت نے عالمی سطح پر مسلمانوں کو ذہنی، قلبی اور روحانی کرب میں مبتلا کیا ہے، دنیا کی تاریخ اس کا بار بار تجربہ کرچکی ہے کہ قومِ مسلم اپنا سب کچھ چھوڑسکتی ہے؛ مگر اپنی مقدس کتاب قرآن مجید اور مقدس پیشوا پیغمبرِآخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرسکتی ہے۔

          پھر اس کی ذمہ دار وہ حکومتیں ہیں جو دوہرے معیار کے ہزارہا ریکارڈ قائم کرچکی ہیں، جن کے لیڈران عالمی فورموں میں احترامِ اسلام ومسلم کی دہائی دیتے ہیں؛ لیکن پس پردہ ان کے خلاف اسکیمیں بناتے ہیں جس کی واضح مثال خود امریکہ کی انتظامیہ کی طرف سے حرمین شریفین کو (نعوذ باللہ) تباہ وبرباد کرنے کے لیے برسوں فوج کو تربیت دی جانی ہے، یہ ایک برہنہ حقیقت ہے کہ لوگ دوسروں کی مذہبی جذبات سے کھیلنے کے عادی ہوچکے ہیں، عالمی خبروں سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی آئے دن کا معمول ہے، جس کا تازہ ثبوت یہ ناپاک اور فتنہ انگیز فلم ہے،جس کے کرب سے پورا عالم اسلام بے چین ہے، امریکہ اور اس کے حواریوں کا یہی وہ مفسدانہ رویہ ہے جس سے عصر حاضر کے ایک بڑے طبقہ کا یہ احساس ہے کہ: امریکہ اس وقت امنِ عالم کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور تشویش اس بات پر ہے کہ اس فرعونِ وقت کی سرکوبی کے لیے بہ ظاہر کوئی موسی (علیہ السلام) نظرنہیں آرہا ہے۔

***

          وابستگان خاندانِ مدنی کو بالخصوص اور دیوبندی مکتبہٴ فکر سے متعلق لوگوں کو بالعموم یہ وحشت ناک خبر سن کر قلبی صدمہ ہوگا کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا اسجد مدنی کی والدہ محترمہ ۱۴/شعبان ۱۴۳۳ھ مطابق ۵/جولائی ۲۰۱۲/ بروز پنجشنبہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے شب میں رہ گرائے عالمِ جاودانی ہوگئیں، مرحومہ کی عمر یک صد سے متجاوز تھی، ضعف پیری اور مختلف امراض کی بناء پر ایک عرصہ سے صاحبِ فراش تھیں، اس زمانہ میں گھرالوں نے جس طرح ان کی ٹوٹ کر خدمت کی اور ان کی راحت وآرام کا جس طرح ہمہ وقت خیال رکھا، یہ معنوی دولت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔

          مرحومہ پورے حلقہ میں ”آپاجی“ کے لقب سے معروف تھیں، ہر چھوٹا بڑا حتیٰ کہ ان کے بیٹے، پوتے اور پڑپوتے سب ان کو اسی نام سے یاد کرتے تھے، آپاجان خود حضرت شیخ الاسلام قُدِّسَ سِرُّہ کے خاندان کی ایک فرد تھیں اور حضرت شیخ کے چچازاد بھائی کی نورِچشم تھیں، نکاحِ اوّل کے تقریباً دو تین سال بعد ہی بیوگی کی مصیبت کا شکار ہوگئی تھیں؛ چونکہ آنکھیں دینی ماحول میں کھولی تھیں، پھر حضرت شیخ الاسلام کی صحبت نے انھیں کُنْدَن بنادیا تھا، صوم وصلوٰة اور ذکر وتلاوت کی پابندی کے ساتھ حضرت مدنی قُدِّسَ سِرُّہ کے وسیع دسترخوان کے لیے جس خوش دلی اور محنت ولگن سے کھانے وغیرہ کا انتظام کرتی تھیں یہ سب کے بس کی بات نہیں ہے، ساتھ ہی یتیموں اور بیواؤں کی امداد وکفالت ان کا خاص شعار تھا، دوسروں کی شادی وغمی میں شرکت ان کی گویا عادتِ ثانیہ تھی، ان سب کے ساتھ گھر کے بچوں کی تعلیم وتربیت کا بے حد خیال رکھتی تھیں، اپنے انھیں اوصافِ عالیہ کی وجہ سے وہ ہردل عزیز تھیں، اپنے وپرائے سب ان کو عزت واحترام اور خلوص ومحبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی تقصیرات پر عفو وکرم کی چادر ڈال کر انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پس ماندگان بالخصوص دونوں صاحبزادگان کو صبرِ جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین

------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء